ٹیکنالوجی کی تاریخ ، حال اور اِس کا مستقبل
History, Present and Future of Technology
دیباچہ
السلامُ علیکم ! کیسے ہیں آپ لوگ ؟ میرانام ہے ریحان اللہ والااور آج ہم کچھ بات کریں گے اِس دنیا کی کرنٹ نیچر پر اور یہ کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا کیسی ہوگئی ہے؟
میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی جسکا نام ہے،دی ورلڈ از فلیٹ( The World is Flat) اسکو تھومس فریڈمن (Thomas Freedmen) نے لکھا ہے آپ اسکو ضرور پڑھیں یہ آڈیو میں بھی ہے اور کتاب میں بھی ہے۔ اگر آپ اسکو سننا چاھیں تو http://RehantU.com/flat پرموجود ہے آپ اس کو ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں۔ آج 2013 ء میں ہم دنیاکے شہری ہونیکی حیثیت سے اتنے ہی پاور فل ہوگئے ہیں کہ جیسے ایک امریکہ کا شہری ہو یا پاکستان کا۔سب کے پاس ایک جیسے مواقع موجود ہیں۔ جو مواقع ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے لئے نہیں ہیں اب وہ مواقع موجود ہیں ہر اُس انسان کیلئے جو کہ کمپیوٹرپر کام کرنا جانتا ہے۔ مثلا اگر آپ نیو یارک میں رہتے ہیںیا کراچی میںیا چیچہ وطنی میں رہتے ہیں اگر آپ کے پا س انٹرنیٹ ہے اور کمپیوٹر ہے تو آپ اتنے ہی طاقت ور ہیں جتنا کہ ایک آدمی جوکہ نیویارک میں رہتا ہے ۔ اسکی جو بنیادی وجہ ہے وہ ہے انٹرنیٹ ۔
انٹرنیٹ کی ابتدا؍تاریخ
جدید انٹرنیٹ کے اندرسرمایہ کاری تقریباً 1995 سے لیکر 1999تک شروع ہوئی اور انٹرنیٹ بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا ۔لوگوں نے امریکہ میں Nasdaq کی اسٹاک ایکسچینج( Stock Exchange )میں بہت سارے پیسے لگانا شروع کردیئے اور عالمی سطح پر(Globally) چاروں طرف فائیبر آپٹکس (Fiber Optics) کی تاریں ڈالنا شروع کردی گئیں ۔اس حوالے سے کہ اب لوگ انٹرنیٹ بہت استعمال کریں گے، توچھوٹی بڑی کمپنیاں ،سبھی کو لاکھو ں اربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ ملنا شروع ہوگئی اور جس کے نتیجے میں آج تک تقریباََ ایک ٹرلین ڈالر(One trillion Dollar)کا فائیبرآپٹکس پوری دنیا میں ڈالا جا چکا ہے ۔ اِس ایکٹرلین ڈالر کے فائیبر آپٹکس کے پھیلنے سے فائدہ یہ ہوا کہ جو بینڈوڈتھ یعنی Internetکی speedکی قیمت تھی وہ بہت زیادہ کم ہوگئی ۔
سن 2000ء میں NASDAQجو کہ امریکہ کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ تھی ،وہ 7000پوائنٹس سے گر کر 2000پوائنٹس پر آگئی۔ مارکیٹ کے گرنے سے اور کمپنیوں کے بند ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے جیسے ممالک کوہوا، خاص طور پر پاکستان، انڈیا،بنگلہ دیش کو ہوا۔فائدے کی وجہ یہ تھی کہ سافٹ ویئر سے متعلق جو کام لوگ امریکہ میں پہلے کرا تے تھے، وہی کام نسبتاً سستے داموں میں امریکہ سے باہر کے ممالک سے کرانا شروع کردیا۔اِسکی بہت ساری وجوہات ہیں جن پرمیں آگے مزید بات کروں گا کہ کس طرح دنیا چپٹی ہونا شروع ہوئی اور یہ مواقع دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوئے۔
سب سے بڑی وجہ جو میں نے بتائی کہ وہ انٹرنیٹ ہے اور انٹرنیٹ کی اس ٹرلین ڈالر کی انویسٹمینٹ کے بعد ایسےtools؍اوزار جوہمارے پاس آئے جیسے کہ اسکائپ(Skype) ، جنکی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ امریکہ میں رہتے ہیں یا آ پ انڈیا میں، آپ بات آرام سے مفت میں بات کرسکتے ہیں۔ بہت لوگ (cost) کرسکتے تھے جسکی وجہ خاص طور پروہ بڑی بڑی کمپنیز جو تھیں انھوں نے آ وٹ سورسنگ (out sourcing) شروع کردی ایسے کاموں کی جو کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہوسکتا ہو۔آج کے دور میں آ وٹ سورسنگ کی جو بڑی مثال ہے وہ اکاؤنٹنگ ہے، کال سینٹر ہے ، ڈیٹا مائنگ ہے ، ہر وہ کام جہاں پر کمپیوٹر کا استعمال ہو سکتا ہووہ آ وٹ سورس کردی گئیں۔
اسی طرح اگر آپ نیویارک میں ہوں اور مکڈونلڈ کے ڈرائیو تھرو میںآرڈردیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ آرڈر کراچی یا کولکتہ میں لیا جا رہا ہو۔ اسی طریقے سے جو ائیرلائنز (Air Lines) کی بکنگز ہیں ،جب آپ فون کرتے ہیں لوکل نمبر پر اور ائیرلائن کی اپنی reservation کرا رہے ہوتے ہیں تواِس سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ بندہ کراچی میں رہتا ہو یا چیچہ وطنی میں بیٹھا ہو، کیوں کہ کال سینٹر آوٹ سورس کردیے گئے ہیں۔
ایک بڑی دلچسپ مثال(JetBlue.com)Jet Blue Airways کی ہے،جس کا کال سینٹرانجنٹ اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر نو کری کرتاہے۔توتھامس فریڈمین نے جب ٹکٹ بُک کرنے کے لیے کال کی، تو وہ کال ایک خاتون نے اٹھائی اور کھا کہ ہیلو میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟ ۔تھامس نے پوچھا کہ آپ ابھی کہاں ہیں؟ تو خاتون نے جواب دیا کہ میں اپنے گھر میں1st Floorپر ہوں، Salt Lake City میں، اور مجھے میرے گھر کے سامنے Salt Lake نظر آرہا ہے اور میں بہت خوش ہوں۔
اس کام کی وجہ سے ایک تو لوگوں کی آنے جانے کی ٹرانسپورٹیشن کی قیمت کم ہوگئی ۔اس کے علاوہ لوگ زیادہ خوش ہوئے کہ اپنی فیملی کیساتھ وہ کھانا کھاسکتے ہیں اور اسی طرح کوئی اور مسئلہ ہو تو اس کو نمٹاسکتے ہیں۔ اِس طرح لوگ زیادہ خوش رہنے لگے اور پروڈکٹیوٹی بجائے کم ہونے کے اُوپر جانا شروع ہو ئی ۔ یہ ہوئی اِن کنٹری آوٹ سورسنگ اور انٹرنیشنل آوٹ سورسنگ۔
ان باتوں سے ہمیں پتہ چلا کی دنیا کے اندر فاصلے مٹ گئے ہیں اور یہ چپٹی ہوگئی ہے۔اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اس (Opportunity) سے ہم بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم کیسے فائدہ اٹھائیں؟
آئیں مزید دیکھتے ہیں کہ وہ کونسی ایسی چیزیں ہیں جنکی وجہ سے دنیا مزید چپٹی ؍برابرہوگئی ؟ایک تو میں نے انٹرنیٹ کا ذکر کیا کہ تقریباََایک ٹریلین ڈالر، ایک کھرب ڈالر، یعنی کہ تقریباََ ایک سو کھرب روپے کی انویسٹمینٹ ہوئی جو مختلف کمپنیز نے کی جو کہ بعد میں ختم ہوگئیں، لیکن وہ کمپنیز پھر زیادہ تر انڈین کمپنیز نے ،جیسے کہ ٹاٹاکمیونیکیشن نے خرید لیں۔اور بھی کئی انٹرنیشل ادارے ہیں جنہوں نے ان کو خریدا اور زیادہ تر اب وہ امریکی ملکیت بھی نہیں رہی ہیں ۔
What is a Global Company?
ایک اوربات، اس سے پہلے کہ ہم آگے جائیں کہ یہ کونسے عناصر ہیں ،ہم ایک بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گلوبل کمپنی کسے کہا جاتا ہے؟اور امریکن کمپنی یا کسی اور ملک کی کمپنی کامطلب کیا ہوتا ہے ؟ وہ کیا بات ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ امریکن کمپنی ہے ؟مثال کہ طور پر HP(Hewlett-Packard) ،جس کو مسٹر ہلیولڈاور مسٹر پیکرڈ نے 1939ء میں امریکہ میں اپنے گھر کے گیراج سے شروع کیا۔جسمیںآج تقریباََ ڈیرھ لاکھ لوگ کام کرتے ہیں،لیکن Hewlett-Packard امریکہ کے اندر ہیڈ آفس ہونے کے باوجود،جرمنی کے اندر بڑیITکمپنی ہے ، ساؤتھ افریقہ کے اندر سب سے بڑی کمپنی ہے Russia کے اندر سب سے بڑی IT کمپنی ہے ، اب اگر Hewlett-Packard بند ہوتی ہے تو کس ملک کی کمپنی بند ہورہی ہے؟ کیا چالیس ہزار امریکہ میں کام کرنے والے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ امریکہ سے باہر ہیں تو کیا وہ امریکن کمپنی ہوئی؟ یا نہیں ہوئی؟ یہ ایک بڑا زبردست سوال ہے۔
خیر میں جس ارادے میں کام کرتا ہوں اس ادارے کا ہیڈ کواٹر بھی امریکہ میں ہے اور زیادہ تر کام کرنے والے امریکہ سے باہر ہیں، تو کیا ہماری کمپنی امریکن ہوئی؟ یا نہیں ہوئی؟ ہم امریکہ میں ٹیکس دیتے ہیں، ہم دوسرے ملکوں میں بھی ٹیکس دیتے ہیں، تو یہ کونسے ملک کی کمپنی ہوئی؟ بڑا مزیدار سوال ہے۔۔۔اِسی طرح سےRolls-Royceنامی کمپنی، جرمنی کے اندر کچھ شہروں میں سب سے بڑیEmployer ہے۔ Rolls-Royce کے چیئرمین کو جرمنی کے چانسلر نے کہاکہ آپ ہمارے ساتھRussia چلیں، اور Russiaمیں انویسمنٹ کریں،تو کیا وہ انگلش کمپنی ہے یا جرمن کمپنی ہے ؟
گلوبلائیزورلڈ ہونے کی وجہ سے opportunitiesمختلف ہوگئی ہیں۔ اب ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب ہم دنیا میں کس طریقے سے آگے چلیں گے؟
Flattening کا یا برابری کی سب سے بڑی جو وجہ تھی وہ تھی انٹر نیٹ ، اور انٹرنیٹ ایک نیٹ ورک ہے جوپوری دنیا میں آپس میں کمپیوٹر ز کوconnectکرتا ہے۔ جتنے بھی کمپیوٹر سرور لگے ہوئے ہوتے ہیں انکو جب ہم آپس میں کنیکٹ کرلیتے ہیں توانٹرنیٹ بن جاتا ہے۔
انٹر نیٹ آنے کے بعد لوگوں نے جس چیز کا استعمال سب سے زیادہ کیا ,وہ ہے ای میل(email) ۔ای میل ایک ایسی چیز تھی کہ جس سے آپ کراچی میں بیٹھ کر کراچی ای میل کریں یا کراچی میں بیٹھ کر کراچی سے باہر ای میل کریں ،چیچہ وطنی یا نیویورک ای میل کریں، قیمت برابر ہوتی ہے۔
1996 ء میں، میں ایک کمپنی کے ساتھ کام کرتا تھا اسکا نام تھا BRAINET اور اس سے پہلے ایک اور کمپنی تھی اس کا نام تھا Info-Link ۔وہ کمپنی ایک روپیہ میں ایک ای میل بیچتی تھی۔ چا ہے آپ کراچی ای میل کریں یا نیویارک ای میل کریں ، قیمت برابر ہی ہوتی تھی۔ اس ای میل کی وجہ سے دنیا چپٹی ہونا شروع ہو گئی، لوگوں کی کمیونیکشن بڑھنا شروع ہوگئی ۔اس سے پہلے فیکس مشین تھی جو کہ 300روپے میں پاکستان سے امریکہ یا 100روپے میں کراچی سے لاہور ایک صفحہ بھیجتی تھی۔
ای میل کے اوپر گروپس ہوتے تھے، جیسے کہ آج کل Yahoo Groups ہوتے ہیں یاGoogle Groupsہوتے ہیں یا پھرFacebook Groups ہوتے ہیں۔ اسی طریقے سے اس وقت بھی ای میل کے گروپس ہوتے تھے۔یہ 1995-1996 کی بات ہے، میں نے ایک گروپ جوائین کیا، اسکا نام تھا انٹرنیشنل ٹیچر یا انٹر نیشنل دوست۔ اور اسی گروپ میں سے ایک دن مجھے ایک ای میل نظر آئی ، ایک خاتون نے ای میل کی کہ ہم کو انڈیا سے ایسے لوگ چاہئے ہیں جو اپنے کلچر کے بارے میں ہمارے بچوں کو بتا سکیں۔ تو اس کا میں نے جواب دیدیا کہ میں پاکستان سے ہوں، کیا میں بھی جواب دے سکتا ہوں؟ آپ کے بچوں سے بات کر سکتا ہوں ؟وہ ای میلSuzanne Slay نے لکھی تھی اوSuzanne Slay ایکCarver Middle School میں انگلش کی ٹیچر تھی ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں آپ بلکل بات کرسکتے ہیں، آپ اپنے بارے میں بتائیں، پھر ہم نے Email کرنا شروع کی ۔ ان سے میری بات روزانہ ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ میری اچھی دوست بن گئیں۔ اورجب امریکہ میں، میں نے کمپنی بنائی تو وہ میری کمپنی میں وائس پریزڈنٹ کے طور پر کام کرنے لگیں ۔
یہ ہوا نتیجہ اُس انٹرنیٹ کا جو آرمی کیلئے بنایا گیا تھا ،لیکن بعد میں اس کو ایک عام آدمی نے بھی استعمال کیا اور اس سے ایک تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔
ای میل کے آنے کے بعد جو دوسری چیز آئی وہ ہے ویب، انٹر نیٹ۔ ویب 1996 ء سے پہلے ٹکسٹ ہوتا تھا ،کرافکس نہیں ہوتی تھی ۔ایک سافٹ وئیر ہوتا تھا جس پر جاکرلوگ چیزوں کوbrowse کیاکرتے تھے ۔ ویب کے آنے سے پہلے لوگ ftp استعمال کیاکرتے تھے اور Use Net گرپس ہوتے تھے ،انکو استعمال کرتے تھے ۔ ان گرپس کو استعمال کرنے کے بعد کسی نے کہا کہ ہمارے کمپیوٹر میں Information رکھی ہے ہم اس کو شیئر کرنا چاہتے ہیں ۔ تو سب سے پہلے Caltech Institute نے ویب سرور کا سافٹ وئیر بنایا ، اور اسکے بعد ایک سوفٹ وئیر Mosaic کے نام سے ہوتا تھا، جس سے آپ ویب براوزنگ کرسکتے تھے۔ پھر ایک انٹر نیٹ سرچ انجن Altavista کے نام سے آیا،وہاں جاکر آپ چیزوں کو سرچ کرسکتے تھے۔
اس وقت سرچ انجن جو تھے وہ لوگmanually بناتے تھے، یعنی کہ لوگ لنک بھیجتے تھے تو کمپنی اپنی ویب سائٹ پر اس کو ارینج کر کے ڈائریکٹری کی شکل بنا دیتی تھی اور Indexing کرتی تھی۔ اس کے بعد ایک Browser آیا اس کا نام تھا Netscape اور اس کے آنے کے بعد بہت تبدیلیاں آئیں کیونکہNetscape میں گرافکس ہوتی تھیں، اورHTML2 کا م کرتا تھا ۔ان گرافکس کے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بہت رِچ ٹکسٹ نظر آتا تھا۔ یعنی لوگوں کو تصویریں بھی نظر آتی تھیں اور ٹکسٹ بھی، اور وہ پہلی کمپنی تھی جس نے بلین سے اوپر کراس کر کے، دو سے ڈھائی بلین ڈالر کا NASDAQ میںIPO(Initial Public Offer)ہوااور اس کے بعد NASDAQ کی مارکیٹ میں Boomآنا شروع ہوا۔
اسی دوران1997ء میں hotmail کا وجود عمل میں آیا جس کے موجد تھے مسٹرسبیر بھاٹیا(Mr. Sabeer Bhatia) ۔اسEmail کا احساس انھیں اُس وقت ہوتا جب ہو انڈیا جاتے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایک ایسا سسٹم بنایا جائے کہ جس سے ویب کے ذریعے میل (Mail)پڑھی جا سکے۔اس سے پہلے ویب کی ای میل وجود میں ہی نہیں تھی۔ لوگ سوفٹوئیر کے ذریعے ای میل ڈاؤن لوڈ کرتے تھے، پوپ تھری کلائنٹ ہوتے تھے، میں اس وقت Pegasus Mail استعمال کرتا تھا اور اس سے پہلے Win Mail استعمال کر تا تھاجب UUCP ہوتا تھا۔ لیکن جب Hotmail بنائی گئی تو وہ اتنی مقبول ہوئی کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اسکو Microsoft نے400 ملین ڈالر یعنی آج کے تقریباً چار ارب روپے میں خریدلیا۔ یہ Microsoft کی پہلی Acquisition تھی جو اتنی مہنگی تھی جسکی وجہ سے میں سمجھتا ہوں دوبارہ ٹیکنالوجی میں بہت بوم آیا۔
اس کے بعد جبBrowsing شروع ہوئی تو پھر سرچ انجن جیسے کہ Yahoo آیا، Yahoo نے ای میل بنائی جو Yahoo Mail کے نام سے جانی گئی،اسی طرح آہستہ آہستہ بہت ساری کمپنیاں بنائی گئی ۔میری جو پہلی ویب سائٹ تھی جو میں نے سب سے پہلے 1996 ء میں بنائی، اس کا نام تھا TPCG.comاور میری ایک کمپنی تھی اس کا نام تھا Pakistan Computers ۔اس وقت بھی مجھے زیادہ کام کرنے کا شوق تھا تو میں نے Pakistan Computers group Theکے نام سے ایک وئیب سائیٹ بنائی اور اس کے بعد جو دوسرا domain میں نے خرید ا، وہ تھا Paki.com ، پھر تیسرا domain تھا Rehan.com،اور چوتھا domainجو میں نے خریدا وہ تھا Pakistan-net.com
pakistan-net.com ایک ایسی ویب سائٹ تھی جس پر کوئی بھی جاکراپنی مرضی کا پیج ڈیزائین کرسکتا تھا۔سائٹ پر جاکر Userکو اپنی انفارمیشن کا فارم پُر کرنا ہوتا تھااور Enterکرنے پر User کی ویب سائیٹ تیار ہوجاتی تھی ۔بالکل اسی طرح جیسے آج Facebook پر آپ جاتے ہیں اپنا نام وغیر(Fill)کرتے ہیں تو آپکا ایکPage بن جاتا ہے ۔جسمیں آپکی انفارمیشن ہوتی ہے اور لوگ آپ کو ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ Pakistan-net.com ناصر نے بنائی تھی اوراُس پر تقریباََ30000 pages بن چکے تھے۔ لیکن اُس وقت اُس میں Editing کا آپشن نہیں تھا ۔اس وقت تک ہمارے پاس Data Basesکے سوفٹوئیر نہیں تھے بسHTML کے پیجز بناتے تھے۔ جب آگے چلے تو Paki.com سائٹ بنائی گئی۔اُن دنوں وائس چیٹ(Voice Chat)کا بُوم آیا ہوا تھا۔ وائس چیٹ کے سرور ہم نے Paki.com میں انسٹال کیے۔ اس وقت ہمارے پاس تقریباََ دن کے 8000/9000 لوگ آناشروع ہوگئے، تو میں نے اُسی سائٹ پر بہت سارے Affiliate کے لنک لگادئیے۔ Affiliate کے لنک لگانے سے یہ ہو ا کہ جو لوگ وائس چیٹ کرنے آتے تھے تووہ کسی بھی چیز پرClick بھی کردیتے تھے اور کہیں Signupبھی کرلیتے تھے جیسے کہ وائس میل سروس یا فیکس سروس یا اور کوئی سروس۔
خیر، Browser اورEmailکے آنے کے بعد لوگوں کی نالج میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ لوگوں کے پاس جو جو علم تھا ،وہ انہوں نے لکھنا شروع کیااور اپنی ویب سائٹس پر ڈالنا شروع کیا۔ اُس وقت تک Blogging کاتصور نہیں تھا ، لوگوں کوhtml زبان سیکھنی ہوتی تھی ۔پھرMicrosoftنے ایک سافٹ وےئر نے بنایا جس کا نام انھوں نے Front Pageرکھا۔ Front Pageکے آنے سے Page بنانا آسان ہوگیا۔Pages کوبنانے کے بعد بس Publishکرنا ہوتا تھااور وہ Publish ہوجاتا ۔آج یہ باتیں اتنی مزے کی اور مزاحیہ سی لگتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت پرانا زمانہ تھا مگرجتنی بھی باتیں میں کر رہا ہوںیہ صرف اور صرف دس بارہ سال پہلے کا زمانہ تھا۔ دس بارہ سال کے اندر جوRevolution آیا ہے وہ میری نظروں کے سامنے آیا ہے۔
ایک دفعہ کی بات ہے میں کسی کے گھر دعوتِ افطار پر گیا ۔ اُن صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا تم کیا کرتے ہو؟ یہ 1996/1997ء کی بات ہے ،میں نے کہا’’ انکل میں ای میل بیچتا ہوں‘‘ ۔ انہوں نے کہاکہ ای میل کیا ہوتا ہے؟ انہی صاحب کی چار سال بعد پاکستان کے اندرایک بڑیISP (Internet Service Provider) کی کمپنی بنی ۔تو چینجز جو آتے گئے وہ اتنی تیزی سے آتے گئے یقین نہیں آتا۔
ایکLaw ہے، جو کہMorse Lawکہلاتا ہے ۔Morse Lawکے مطابق صرف18 مہینے میں ٹیکنالوجی کی قیمت آدھی اورا سپیڈڈبل ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ Constantly ہمارے پاس جو ٹیکنالوجی آتی جارہی ہے وہ grow ہوتی جارہی ہے میں نے اپنا پہلاویڈیو کیمرہ جب خریدا تھا تو اس وقت میں 20-22 سال کا تھااوراُسوقت اسکی کی قیمت 35000 روپے تھی،یعنی تقریباً 500ڈالر۔ آج ہم جس کیمرہ سے ویڈیو بنا رہے ہیں اس کا نام ہے فلیپ اور اس کی قیمت میں نے30ڈالریعنی تین ہزار روپے اداکی ہے اور اسکی جو کوالٹی ہے اگر اُس وقت ہم اِس کو خریدتے جب یہ ٹیکنالوجی تھی موجود بھی نہیں اور اگر ہوتی توشاید 40/50 لاکھ کی ہوتی۔
ٹیکنالوجی کی جوا سپیڈ چینج آئی ہے اس ا سپیڈ کی وجہ سے میرے اندر ایک تبدیلی آئی ہے، وہ یہ کہ مجھ سے پرانا کام ہوتا ہی نہیں۔ میں اپنے والد کی دکان پر جاکر بیٹھتا تھا ۔ان کے پاس وہی پانچ کسٹمر روزانہ کے ہوتے، وہ ہی سوال کرتے جسکا میں جواب دیتا ۔ میرے لئے یہ بہت مشکل ہو جاتا تھا کہ میں ان کو جواب دے سکوں کیوں کہ مجھے بورنگ لگتا تھا کہ کل بھی یہ با ت کہی ،تھی آج بھی یہ ہی بات کہہ رہے ہیں ۔میرا دل چاہتا تھا کہ میں Cassette میں اپنی آوازریکارڈ کرلوں اور جب بھی وہ سوال کریں تو میں اس کو چلادوں۔ میرے اندر جو تبدیلی آئی اور اپنے چاروں طرف جتنے بھی لوگ میں نے دیکھے ہیں جنہوں نے وہ چیز سیکھی تو معلوم ہوا کہ چینج کو بہت جلدی قبول کرنا پڑے گا ورنہ آپ پچھے رہ جائیں گے۔
ایک اور وہ چیزجو اس کے بعدہم استعمال کرتے تھے1996/1997 ء میں، وہ تھاIRC chat ۔ MIRC ایکfreeware سوفٹوئیرتھا جس پر لوگ کر چیٹ کرتے تھے اس چیٹ پر مجھے ایک دن ایک آدمی ملا اور اس نے کہا کہ ICQ ایک سوفٹوئیر ہے وہ آپ ڈاون لوڈ کریں ،خود کو اُس پررجسٹرڈ کریں اور مجھے add کریں ۔میں نے سوچا کہ یہ آدمی نجانے کیا اول فول بات کررہا ہے۔ خیر ،میں نے ICQڈاون لوڈ کرلیا اور چلایا تو مجھے ایک نمبر ملا130844 ۔یہ میرا ICQ نمبر تھا ۔ اس پر جب میں نے لوگ add کیے تو دماغ بالکل پھٹنا شروع ہوگیا۔ وہ آدمی امریکہ میں کہیں تھا۔ میں اسکو میسج لکھتا اورenter کرتا تو میرا پیغام اُس کے پاس چلاجاتا ۔پھراُس کا میسج مجھے آتا اور پھر میں لکھتا تو میسج چلاجاتا ۔ یہ تھی Instant Communication۔ MIRC کی طرح، لیکن MIRC میں لوگ گُم ہو جاتے تھے۔ICQمیں یہ ہوتا تھا کہ اگرآپ کا کوئی دوست دوسری طرف بیٹھا ہوتا تھا توگرین بتی جل جاتی ۔اور مجھے نظر آتا تھا کہ یہ آدمیOn-line ہے۔ میں نے اپنی دوست سوزئین کو کہاکہ آپ فوراً انسٹال کریں، اس حوالے سے میں بہت excited تھا۔ میری ایک کزن تھیں، ان کے گھرجاکرمیں نے ICQانسٹال کیا۔ جتنے بھی لوگ تھے، میں نے پکڑ پکڑ کر ان کے پاس انسٹال کرنا شروع کیا، ICQ میرے لیے بہت important ہو گیا۔ میرے پورے دفتر میں سب کے کمپیوٹر میںICQ انسٹال ہوگیا۔
اس وقت ہمارے پاس Router نہیں ہوتے تھے ۔ایک سوفٹوئیر wingate کے نام سے تھا ۔اس کے ذریعے ہم انٹرنیٹ کو شئیر کرتے تھے اور انٹر نیٹ کو شئیر کرکے ICQ کواستعمال کرتے تھے ۔ ICQ آیااور اِس کے آنے کے بعدفاصلوں کیlimits ختم ہوگئیں، یعنی communication Instant آسان ہو گئی ۔جس کو چاہے میں پاکستان میں کسی کواپنے آفس کے اندر میسج کررہا ہوں یا امریکہ میں کسی کو مسج کر رہے ہوں۔ آج اس کا جوAdvanced version آپ دیکھتے ہیں وہ ہے Google chat ، MSN chat یا Skype chatWhatsApp۔ ICQ وہ پہلا سوفٹوئیر تھا جس نے اس چیز کوممکن کیا۔
1996-97 ء ہی کے دور میں ایک اور نیا سوفٹوئیر آیا جس کا نام تھا انٹرنیٹ فون۔ و ہ سوفٹوئیر سوزئین نے خرید کر ایک کاپی مجھے بھیجی اور ایک کاپی وہاں انسٹال کی۔ اس سوفٹوئیرکے ذریعے “آواز ” انٹر نیٹ کے ذریعے جاتی تھی۔ جس کامیں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ سوفٹوئیر انسٹال کرنے کے بعد میں سوزئین کے ساتھ بات کرسکتا تھا اگر وہ onlineہوتی۔ICQ کے ذریعے ہم دیکھتے کہ ہمارا دوستonline ہے توانٹرنیٹ فون کے ذریعے ہم اسکو کال کرسکتے تھے۔ اس وقت پاکستان میں انٹر نیٹ بہت آہستہ چلتا تھا کیوں کہ اس وقتDialup internet ہوتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ رات رات بھر ہم جاگتے تھے انٹر نیٹ چلانے کیلئے، کیونکہ 02:00 AM کے بعد لائن لگتی تھی، انٹرنیٹ connect ہی نہیں ہوتا تھا،سارے لوگوں کی لائینزمصروف ہوتی تھیں۔
خیر جب ہم ICQسے انٹرنیٹ فون پر آئے تو اس وقت ایک پراجیکٹ تھا Free World Dialup Project ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک ہیڈ فون لیا ، اس کو توڑا اور اسکےmicrophone کو اور headphone کو فونپر لگا یا ۔پھر نیویارک سے ایک دوست نے فری ورلڈ ڈائل اپ پروجیکٹ کے نمبر پہ کال کی وہاں سے کال انٹرنیٹ کے ذریعے میرے پاس آئی ۔میں نے اس کوpatch کر کے پاکستان میں تجربہ کیا ۔ میرے خیال میں ، میں اس ملک میں پہلا شخص تھا جس نے اس طرح سے کال کی ہو گی۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے کسی نے یہ تجربہ کیا ہوگا۔ واللہ عالم ۔ یہ ایک تجربہ تھا جس نے لیڈ (lead)کیا نیٹ ٹو فون کو، اورپھر voipکی کمپنیز کھلنا شروع ہوگئیں ، لیکن اس وقت peer to peer call ہوتی تھی، اُس کے علاوہ آپ کسی کو کال نہیں کر سکتے تھے۔
سو اب وائس بھی آگئی ،ڈیٹا بھی آگیا۔ہاں ،اسی دوران 1996ء میں tpcg.com پر ہم نےFloridaمیں ایک اسکول (Cardwell Middle School)کو ایک ویب سائٹ بنا کر دی ، اور اس کے بارے میں ایک مکمل full page article چھپا کہ ایک آدمی جو کہ پاکستان میں ہے، اس نے امریکہ کےFlorida کے پہلے اسکول کیلئے ویب سائٹ بناکہ دی ۔ اور اس طرح چیزیں بدلنا شروع ہوئیں کہ ایک آدمی ،جوکہ پاکستان میں رہ رہا ہے، اس کی کمپنی ایک امریکن اسکول کوsponsorکر رہی ہے؟ اس طرح ہوتے ہوئے کبھی کسی نے سنانہیں تھا ۔ خیرمیں نے اُسی انٹرنیٹ فون کے ذریعے باقاعدہ بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔
کچھ عرصہ کے بعد Me CUC کے نام سے ایک سوفٹوئیر آیاجس سے تصویر بھی نظر آنا شروع ہوگئی اُس آدمی کی جوکہ دوسری طرف ہوتا تھا۔ تومیں نے Logitech کا ایک کیمرہ خریدا ،اس کو لگایااوراس کے زریعے میں نے ویڈیو کمیونیکشن بھی شروع کردی ۔ آج یہ بڑی بات نہیں لگتی ۔ساری دنیا ایک دوسرے کو اسکائپ کرتی ہے ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرا آدمی کہاں ہے ؟ انٹرنیٹ کیbandwidth بہتexpand ہوگئی ہے ۔اور دنیا چپٹی ہوگئی ہے۔
آج کے دور میں Flattenerاور برابری ہونے کی سب سے بڑی وجہ ابbandwidthہے۔ آج پاکستان کے اندرone megabyte کی bandwidth، PTCL ایک ہزار روپے کی دیتا ہے ۔ جب ہم نے آج سے دس سال پہلے یعنی 2003میں پاکستان کے پہلے آفیشل لائیسنسزڈکال سینٹر شروع کیا،توPer Megabyte Bandwidth 70,000 ڈالریعنی آج کے تقریباً 70لاکھ روپے ہوتی تھی ، آج اُسی کی قیمتwholesale میں 70 ڈالرper megabyte bandwidthہوگئی ہے۔ تصُور کریں کہ نوں سے دس سال کے اندر ایک 70000 ڈالر کی چیز70 ڈالر میں رہ جائے، تو آج سے دس سال بعد کیا ہوگا ؟آپ ذرا سوچیں کہbandwidth کی قیمتیں کہاں جائیں گی اور اسکی وجہ سے کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ Bandwidth کے سستا ہونے کی وجہ سے آپ اسکائپ پر کال کر سکتے ہیں، ویڈیو ٹرانسفر کر سکتے ہیں،یوٹیوب چلا سکتے ہیں۔ آپ اسکی وجہ سے اتنے ہی privileged ہو گئے ہیں جتنا کہ امریکہ میں رہنے والا ایک شخص privileged ہو سکتا ہے۔جو رسائی(access) اس کے پاس ہے وہی آپ کے پاس بھی ہے۔
1999 ء میںGoogleآیااور آنے کے بعدایک نیا Algorithm لگایاجس نے سرچ کو اور آسان کر دیا۔ سرچ کو cross indexing کیا اور دیکھا کہ کتنے زیادہ بیک لینکس ہیں جس سے گوگل کی انفارمیشن کو لوگوں نے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا شروع کردیااور دو سے تین سال میں گوگل نمبر ایک سرچ انجن بن گیا ۔
آگے جانتے ہیں کہ سرچ انجن آنے بعد اور کیا فرق پڑا۔اب آپ کے پاس وہ ساری انفارمیشن ہے جو دنیا میں کسی اور کے پاس ہو۔ ایک بچہ پاکستان میں رہتا ہے اورایک بچہ امریکہ میں رہتا ہے۔ جو پڑھائی امریکی بچہ وہاں پرaccess کر رہا ہے وہی پڑھائی پاکستان میں موجود بچہ accessکر رہا ہے۔ آج 2013 میں ہمارے پاس میلینز آف میلینزکتابیں موجود ہیں ۔انٹرنیٹ پر وہی کتابیں جو کہ ایک انگریز پڑھتا ہے وہی کتابیں آپ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔وہی Harvard، وہی Stanford، equality کے ساتھ ساتھ آپ اسیStanford کا لیکچرسن سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں۔
تو آجStanford کی وہ education ، وہ Harvardکی education، جو ایک عام آدمیafford نہیں کرسکتا تھا ،آج وہ کرسکتا ہے ۔اور ابھی ایک نیا پراجیکٹ جو MITاورHarvard نے بنایا ہے جسمیں وہ ایک بلین لوگوں کو ڈگریزدینا چاہتے ہیں ۔تو کیا آپ ان میں سے ہونا چاہیں گے یا نہیں؟ یہ آپ کی چوائس ہے۔
اس سارے کے سارے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب انفرادی سطح پر ہر شخص طاقت ور ہے، اب یہ اہم نہیں رہا کہ کونسا ملک آگے ہے اور کونسا ملک پچھے ہے، اب ہوگایہ کہ کون شخص زیادہ علم لینا چاہتا ہے اور کونساشخص کم علم لیناچاہتا ہے۔اب یہ فرق نہیں پڑ رہا کہ کونسے ملک کے اند ر roads موجود ہے اور کونسے ملک کے اندر کوئی اور infrastructure موجود ہے۔اب فرق یہ پڑا ہے کہ کس ملک کے لوگ بڑا سوچ سکتے ہیں،بڑا کام کرنے کی جستجو کرسکتے ہیں، ارادہ کرسکتے ہیں، اور جس ملک نے، چاہے وہ سنگا پور جیسا چھوٹاملک ہو یا امریکہ جیسا بڑاملک ہو، جو ملک بڑاخواب دیکھ سکتا ہو گا ۔وہ بڑا achieve کرسکے گا۔ابھی معاشرے میں یہ رجحان ہے ہر نئی چیز کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنے کیے بجائے اس کی نفی کی جاتی ہے۔ معاشرے کا کام اب یہ ہوگاکہ جو بڑ ا سوچنے کی کوشش کر رہا ہے تو آج ہمیں اُن بچوں کو support کرنا ہو گاکہ آپ کریں، ضرور کریں، آپ امریکہ میں بیچیں ، افریقہ میں بیچیں ، جہاں دل کرے پراڈکٹ بیچیں ، کیوں کہ سوفٹوئیر کی کوئی حد نہیں ہے۔ جہاں انٹر نیٹ چل رہا ہے وہاں سوفٹوئیر چل سکتا ہے ۔
جو ویب کا سوفٹوئیرہے ، اسپیشلی جو کہ اوپن سورس کے اوپر بلڈ(Built) ہوا ہے، اس کی تو اور بھی کوئی لمٹ نہیں ہے۔ اس کی کوئی cost نہیں ہے ، php جو کہ لینگویج ہے،اور ویب سائیٹ بنانے کیلئے استعمال ہوتی ہے، وہ بھی فری ہے۔ apache جوکہ ایک سرور ہے، وہ بھی فری ہے۔آپ آج پاکستان میں سو ڈالر کا سرور خرید کر اس کو انٹر نیٹ پر کنیکٹ کر کے کچھ بھی کر سکتے ہیں یا آپ ویب ہوسٹینگ کسی سے بھی ، جیسکہ گوگل سے جاکر خرید لیںیا فری میں لے لیں اوراس پراپنا سوفٹوئیر بناکر چلاسکتے ہیں ۔جتنے انجنز(engines)تھے اور جتنی انفراسٹکچر کی کوسٹ تھی، وہ انہوں نے ختم کردی ہے ۔اور اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ۔کیا آپ اگلےBill Gates بننا چاہتے ہیں یا آپ اسی طرح سے 9-5کی جاب کرنا چاہتے ہیں ؟یا اسی طرح سے9-5 کے سو ڈالر لیکر یا دو سو ڈالر لیکر خوش رہنا چاہتے ہیں؟یہ اب آپ کیchoiceہے ، کسی اور کیchoice نہیں ہے ۔اب آپ کے پاس سار ے اوزار موجود ہیں جو پاکستان کی حکومت نے آپ کے پاس پہنچادئے ہیں ، جو کہ آپ کی ترقی کی ضرورت ہیں ۔ اب کوئی بہانہ نہیں بچتا ہے۔ بہانے سب ختم، اب بہانہ تو صرف یہ ہے کہ ہم scared ہیں۔ ہاں scared ہونا چاہئے ہے کیوں کہ جو چیز کبھی نہیں سنی ہوتی اس سے بھیscared ہوتے ہیں ۔ شادی کرتے ہوئے بھی ڈر رہے ہوتے ہیں۔لیکن کیا شادی کرتے ہیں یا نہیں کرتے ؟ بالکل کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے step لیتے ہوئے گھبرائیں نہیں، ڈریں نہیں، ڈر لگ رہا ہے، لیکن چلیں، ضرور کہیں پہنچیں گے۔
اب آج کے دور کے ٹولز جو ہمارے پاس 2013 ء میں ہیں جومیں سمجھتا ہوں کہequalizing کیلئے بہترین ہیں ۔سب سے زیادہ اسمیں ای میل ، ویب، فیس بک، لینکڈاِن ،اورا سکائپ ہیں۔ اگر آپ ان چارچیزوں کو، یعنی لینکڈاِن ، فیس بک، ا سکائپ اور گوگل سرچ کرنا اور یوٹیوب،سیکھ لیں، تو دنیا کی ایسی کوئی چیز نہیں بچتی جو آپ نہیں سیکھ سکتے ۔ ہر چیز آپ سیکھ سکتے ہیں ۔اور یہی وہ opportunityہے جو ہر پاکستانی کے پاس موجود ہے، ہر ہندوستانی کے پاس موجود ہے ،ہربنگالی کے پاس موجود ہے، ہر افریقی کے پاس موجود ہے، ہر امریکی اور یورپی کے پاس موجود ہے۔فرق یہ رہتا ہے کہ آپ اسمیں سے کیا سیکھنا چاہتے ہیں۔
میں لینکڈاِن (LinkedIn) کو ڈیفائین کرتا ہوں ، پرانے زمانے میں آپ کو نوکری چاہئے ہوتی تھی تو آپ اپنے دوستوں، رشتہداروں سے کہتے تھے کہ ذرا کسی سے سفارش کروادو بھائی،آپ اس ادارے میں کسی کو جانتے ہو یا نہیں جانتے؟ آج آپ گو گل (Google) پر جاتے ہیں، ادارے کا نام لکھتے ہیں اورCEO لکھتے ہیں تو آپ کو اس ادارے کے CEO مل جاتے ہیں۔ آپ LinkedIn پر اسی ادارے کی پروفائل پر جاتے ہیں اور سرچ کرتے ہیں تو اس ادارے کے 500 لوگ جو وہاں کام کررہے ہوتے ہیں ،اگر وہ بڑی کمپنی ہے تووہ آپ کو مل جاتے ہیں۔ اگر چھوٹا ادارہ ہے تو اس کے بھی تھوڑے سے لوگ تو مل ہی جاتے ہیں۔ آپ لینکڈ اِن پر جاتے ہیں، ان کوconnect کرتے ہیں ، request بھیجتے ہیں، میسج کرتے ہیں ، ہیلو، اسلامُ و علیکم، میں اسی ادارے میں نوکری ڈھونڈنا چاہ رہا ہوں، اور آپ ان کو اپنی cv بھیج دیتے ہیں ۔کسی سورس کی ضرورت نہیں پڑتی۔فرق کیا ہوا ؟کیا ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں اٹھاتے ہیں ؟ ایک اورا سٹپ آگے چلے جاتے ہیں ،اب آپ کے پاس یہ بھی boundry نہیں ہے،
خاص کر ایسے لوگوں کیلئے جوaccountant ہوں یا software engineer ہوں، وہ ایک ملک میں رہتے ہوں، ایک ہی شہر میں رہتے ہوں اور وہ دوسرے ملک میں کام کرتے ہوں۔ یہlimitation بھی ختم ہوگئی ہے۔
آگے چلتے ہیںیوٹیوب کی طرف، یوٹیوب ایک ایسی چیز ہے جس نے ساری دنیا کو ہلادیا۔ یوٹیوب پر ایسی کوئی چیز نہیں بچی ہے کہ جس سے آپ سیکھ نہ سکتے ہوں ، کوئی documentary ہو، کسی چیز کے بارے میں how to ہو، کسی اور چیز کی research ہو،جو چیزیں آپ کو گھنٹوں کتابوں پرخرچ کر کے سیکھنی پڑتی تھیں، جوآپ کو گھنٹوں گوگل سرچ کرکے پڑھنا پڑتا تھا، وہ اب آپ ایک پانچ منٹ کی ویڈیو سے سیکھ سکتے ہیں ۔یہ اس طرح سے کام کرتا ہے ہزاروں لاکھوں کروڑوں ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں ۔یوٹیوب پر ایک منٹ میں سو گھنٹے سے زیادہ کا کونٹینٹ(Content) uploadہوتاہے ،تو اب آپ سوچیں کہ کتنے لوگ یوٹیوب پر کونٹینٹ ڈال رہے ہیں، videos ڈال رہے ہیں،اور کتنے لوگ اس کوsurf کر رہے ہیں اورکتنے لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں ۔اب یہ آپ کی پسندہے کہ آپ اس سے کیا سیکھنا چاہتے ہیں ۔اور وہی یوٹیوب جو آپ کو پاکستان میں مل رہی ہے، وہ آپ کو ہندوستان میں مل رہی ہے، وہی بنگلہ دیش میں مل رہی ہے، وہی یوٹیوب امریکہ کو مل رہی ہے،وہی یوٹیوب انگلینڈ کو مل رہی ہے۔وہی یوٹیوب سنگاپور کو مل رہی ہے، وہی یوٹیوب آسٹریلیا کو مل رہی ہے۔ آپ کی چوائس ہے کہ آپ اُسمیں سے کیا نکالتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ سمندر کے اندر ہیرے بھی ہوتے ہیں موتی بھی ہوتے ہیں اور پانی بھی ہوتا ہے کچھ لوگ جاتے ہیں، موتی نکال لاتے ہیں،کچھ لوگ جاتے ہیں اور مچھلیاں پکڑ لاتے ہیں اور کچھ لوگ باتے ہیں اور ساحل پر پاؤں بھگو کر آجاتے ہیں۔ یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ کیا حاصل کرناچاہتے ہیں۔
ایک اور بہت بڑی سہولت جو ہمارے پاس ہے وہ ہے موبائل فون ۔ آج آپکے موبائل فون کی کال اس سے دس گناہ سستی ہے جتنا کہ ایک انگریز کو امریکہ کے اندر کا ل پڑتی ہے ۔آسٹریلیاسے آسٹریلیا کال کرنے کی قیمت زیادہ ہے اور پاکستان سے آسٹریلیا کال کرنے کی قیمت کم ہے۔ پاکستان سے امریکہ کال کرنیکی قیمت کم ہے، پاکستان سےUK کال کرنے کی قیمت کم ہے، امریکہ سے امریکہ کال کرنے کی قیمت زیادہ ہے اورUKسےUK کا ل کرنے کی قیمت زیادہ ہے۔ تو کیوں ہم ان چیزوں کا advantage اٹھا نا نہیں چاہتے ہیں؟ بالکل اٹھانا چاہتے ہیں اور اٹھانا چاہئے ہے بھی۔ میں جب بھی دبئی گیا ہوں اوروہاں سے امریکہ کی کال ہوتی ہے ایک ڈالر فی منٹ، تو میں بہتresist کرتا ہوں کہ کال نہ کرلوں، انتظار کرتا ہوں کہ جب میں پاکستان آوں گا توایک روپیہ فی منٹ کال کرلوں گا ۔ ہم کہتے ہیں کہ دبئی ترقی یافتہ ملک ہے پر ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے یہی چیزیں مل رہی ہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا flat ہو گئی ہے جبکہ میں کہتا ہوں کہ دنیا ہماری طرف جھک گئی ہے۔اس وقت ساری دنیا ہماری طرف جھکی ہوئی ہے۔ ہمیں اس وقت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ فائدہ کیسے اٹھانا ہے کہ آگے نکل جائیں اور گزرے ہوئے وقت میں جو disadvantage ہوا ، اُس کو ہمovercome کرسکیں ۔
اب آپ نےLinkedIn بھی سیکھ لیا ، آپ نے Facebookبھی سیکھ لیا ، آپ نے Google چلانا بھی سیکھ لیا لیکن ایک چیز جس کی آپ کو بہت سخت ضرورت ہوگی اُس میں ایک تو انگریزی زبان، دوسراانگریزی کا کلچر۔ اور تیسرا یہ کہ جگھیں دِھکتی کیسی ہیں ، تو Googleکی ایک اور سروس ہے، اسکا نام ہےGoogle Maps۔اس میں ایک Feature ہے اور وہ ہے Street View Google ۔اس نے کیا کیا؟ اس نے ساری کی ساری دنیا کو ہمارے سامنے رکھ دیا،اب آپ ایک ایک گلی، ایک ایک کونہ آپ گھوم سکتے ہیں ۔ایک ہمارے عزیز ہیں، اُنکا بچہMalaysiaگیاتو میں اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اُن کے ابّا کہنے لگے یہ جی پی ایس ہے۔ میں نے کہا کہ جی پی ایس؟کیا مطلب؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں ۔اُس وقت ہم گاڑی میں سفر کر رہے تھے ،جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جارہے تھے، وہ بتاتا جارہا تھا کہ اب ہمیں لیفٹ مڑنا ہے، اب ہمیں رائیٹ مڑنا ہے، یہاں پر یہ سائن آئے گا، یہاں پر یہ بورڈ ہے۔اُس بچے نے روڈ کا پورے کا پورا نقشہ یاد کیا ہوا تھا۔ وہ کراچی سے KualaLumpurکاپورانقشہ جسطرح یاد کرکے گیا تھا اسی طرح وہ روڈ کا پورا کا پورا نقشہ اس کے دماغ میں بیٹھا ہوا تھاحالانکہ وہ زندگی میں پہلے KualaLumpurکبھی نہیں گیا تھا مگر وہ گوگل میپ پر پورا کا پورا نقشہ دیکھ چکا تھا، اور وہ بتا رہا تھا یہ راستہ یہاں سے دائیں طرف موڑنا ہے اور یہاں سے بائیں طرف موڑنا ہے جو اُس کو پورا یاد تھا۔
یہ وہ چیزیں ہیں جنکو ہم نے حاصل کرنا ہے اور اِس کیلئے ضروری ہے کہ ہم کو یہ کلچر بھی سیکھنا ہوگا ۔اگر ہم کو یہ نہیں معلوم کہ ہم کلچرلی بات کس طرح کریں گے اور ہمیں یہ نہیں معلوم کہ نِک نام کیا ہوتے ہیں، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے محاورے کیا ہوتے ہیں ،تو اگر ہم کو کلچر کو سمجھنا ہے تو اس کیلئے ہم کو تھوری بہتfilmsدیکھنی پڑیں گی، اور اُنکے tourists کی touristic ویڈیوبھی دیکھنی چاہیں اورGoogle maps پر دیکھنا چاہیے کہ یہ لگتا کیسا ہے۔
اب ہم Facebookکے بارے میں کچھ بات کریں گے، وہ ہے Facebook ۔میری زندگی کا ایک مشن (mission) تھا کہ ساری دنیا کے لوگ برابر ہوجائیں ،اب میں سمجھتا ہوں کہ Facebookنے میرا یہ کام کردیا ہے۔آج صدر ممنون حسین کے پاس Facebook پراتنی ہی طاقت ہے جتنی کہ صدراوبامہ کے پاس ہے، یا آپ کے پاس ہے۔
آج آپFacebook پراتنے ہی طاقت ور ہیں، آپ کو اتنے ہی privileges حاصل ہیں جوکہ ایک امیر آدمی کو ہیں۔ آج کسی امیر کوکسی غریب پر اور کسی عجمی کوکسی عربی پرکوئی فوقیت حاصل نہیں ہے،یہ بات ہمیں دین نے ہمیں بتائی تھی۔جو ہمارے کام تھے کرنے کے تھے وہ ایک یہودی بچے نے بنا دیا۔ کیا بہترین کام انہوں نے کردیا۔ آج اس کی عمر 26 سال ہے اور اس کی کمپنی کی قیمت سوارب ڈالرسے زیادہ تک پہنچ گئی ہے پچھلے سات سال میں۔ کیوں ہمارے ملک میں ایک ایسا بچہ نہیں پیدا ہوا جوکہ ایک بلین ڈالر کی ایک کمپنی بناسکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمover protection کرتے ہوئے، جب ہم انہیں آگے جاتے ہوئے اور کوئی مختلف کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ٹانگ کھینچ لیتے ہیں؟ کیوں ہم اتنا ڈر تے ہیں ؟کیوں ہم غلطی کو برداشت نہیں کرسکتے ؟کیا ہواگر وہ فیل ہوجائے گا ؟چھوٹا سا کاروبار ہے خراب ہوجائے گا؟کتنے پیسے برباد کردے گا ؟ہم ایک لاکھ ڈالر سال کی Harvardکی فیس تو دے سکتے ہیں مگر دس ہزارڈالرکے کاروبارکا نقصان کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔کیوں ہے ایسا؟ اگر ہم failure کوقبول نہیں کریں گے ، اپنے بچوں سے ،اپنی اولادوں سےunconditional محبت نہیں کریں گے، تو ہم آگے نہیں جاسکیں گے ۔ ہمیں اِن چیزوں کو سیکھنا ہے ۔
اگرہمیں اُ ن قوموں میں شامل ہونا ہے ، جو ترقی یافتہ کہلاتی ہیں، تو ہمیں اُن چیزوں کو adopt کرنا ہے جو ہمارے بچوں کے passions ہیں۔ یہ سیکھنا ہے کہ سیکھا کیسے جا تا ہے ؟ یہ آج کے وہ اوزار ہیں جنکو اگر ہم نے استعمال نہیں کیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے ۔ بہت سالوں پرانی بات ہے ، ایک صاحب تھے، انہوں نے کہا کہ جو آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانے گا یا انگریزی نہیں جانے گا وہ پیچھے رہ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں جو آدمی گوگل نہیں کرسکتا ، جو آدمی یوٹیوب پر videoنہیں دیکھ سکتا، جوبچہ search اورresearch نہیں کرسکتا اور جو بچہ، خراب کونٹینٹ اور صحیح کونٹینٹ identify نہیں کرسکتا ، وہ پیچھے رہ جائے گا۔خراب کونٹینٹ کیا ہوتا ہے؟ خراب کونٹینٹ وہ ہے جس کے پیچھے ریسرچ نہیں کی ہو، جیسے کہ ایک آدمی آئے اور کہے کہ یہ حضورﷺ کی حدیث ہے۔ کیوں ہم ویب پر حدیث ڈاٹ کام پر جاکر دیکھ نہیں سکتے کہ یہ کونسی حدیث ہے؟ اس کا راوی کون ہے اور اس کی کیاسند ہے؟
آج اگرایک چھوٹی کمپنی ہے وہ ایک بہت بڑی کمپنی کی طرح آپریٹ (operate)کرسکتی ہے۔ میری کمپنی ایک بہت چھوٹی سی کمپنی ہے لیکن اگر آ پ میری کمپنی کی ویب سائٹ دیکھیں گے ، اسکی introduction film دیکھیں گے(www.supertec.com/intro) ، تو آپ کہیں گے کہ یہ بہت بڑی کمپنی ہے۔ آمدنی کے حساب سے میری کمپنی بہت چھوٹی سی کمپنی ہے ۔لیکن آج آپ اس کا امیج بہت بڑا کرسکتے ہیں ،آج آپ کے ملک میں جو چھوٹی سی دکان والا ہے وہ اپنی دکا ن کو بہت بڑا دیکھاسکتا ہے یہ وہی ساری چیزیں ہیں جو ہالی ووڈ نے ہم پر impose کی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریز کبھی چاند پہ بھی نہیں گیا ، اور ہالی ووڈنے چاند پر جانے کے لیےscene کوکاپی کرلیا ۔تو کیوں آج ہم اِن technologies کواستعمال کرتے ہوئے اپنی business کو صحیح طریقے سے present نہیں کرسکتے ہیں ؟ ہم اگراپنے business کو صحیح طریقے سے present کریں گے تو ہم بہت بڑے ادارے والے لگنے لگیں گے ۔
ہمارے ملک کی جو خراب باتیں لوگ Hollywood,CNN یا BBCکے ذریعے ہمارے ہی اوپر مسلط کرتے ہیں، ہم اسکوdiscredit کر کے، اُس پرProper Create کرکے ، پراپر Bloggingکرسکتے ہیں ، ویڈیو بھی بنا سکتے ہیں، documentariesبھی بناسکتے ہیں۔ آج ہمارے یونیورسٹی کے بچے بہت ذہین ہیں، بہت اسمارٹ ہیں۔ وہی software جو کہ انگریز کو آٹھ سو ڈالر کا خریدنا پڑتا ہے، وہ ہمارے ہاں چالیس روپے کی سی ڈی مل جاتا ہے۔ ہمیں آج دوہرا فائدہ حاصل ہے، ہم بجائے اس کے کہ اُن قوموں سے پیچھے ہوں، یا برابر ہوں،میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم اُن قوموں سے بہت آگے ہیں لیکن ہم فائدہ اُٹھانے میں بہت پیچھے ہیں، ہمtechnology کا صحیح فائدہ اُٹھانا نہیں جانتے ، بلکہ اُسکاغلط استعمال کر رہے ہیں۔ ہم کو صحیح فائدہ اُٹھانا چاہئے اور ہم کو technology کا صحیح فائدہ اُٹھاتے ہوئے آگے نکلنا چاہئے ۔
اب ہم Facebook پر واپس آتے ہیں، Facebook جیسے کہ میں نے کہا ایک ایسا tool ہے جہاں اوبامہ اور آپ برابر کی طاقت رکھتے ہیں۔آپ Israel کے صدر کو پیغام پہنچا سکتے ہیں کہ آپ ہمارے فلسطین مسلمانوں پر کیوں ظلم کررہے ہیں ؟ دنیا کے جو بھی بڑے لیڈرز ہیں، جنکے بارے میں آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ ان سے بات کر پائیں گے ،آج آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر ان تک پیغام پہنچاسکتے ہیں۔ آپ کے جوinterior minister ہیں وہ ہر وقتtwitter پر ہوتے ہیں، آپ ہر وقت ان کو پیغام دے سکتے ہیں ۔ہر وقت Facebook پر ہوتے ہیں، آپوہاں بھی ان کو پیغام دے سکتے ہیں، یا آپ کے ملک کے جو President ہیں اُن کو پیغام دے سکتے ہیں۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کے ملک کی اسمبلی کے لوگ جیسے کہ ایم این اے ہیں، یا ایم پی اے ہیں، اور آپ کی بات نہیں مانتے، وہ اچھے کا م نہیں کر رہے ہیں تو آپ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں، آ پ انکی Facebook کی دیواروں (Wall)پر جاکر لکھ سکتے ہیں کہ بھائیوں کیوں ہمارے علاقے میں یہ مسائل ہیں؟ اگر آپ انکو رابطہ نہیں کریں گے تو ان کو کیا
معلوم ہوگا کہ آپ کے کیا مسائل ہیں؟ اگر آپ اوبامہ کے پیج پر جاکر نہیں لکھیں گے کہ میں پاکستانی ہوں میرے ملک سے ڈرون کو ہٹائیں، تو کس طریقے سے وہ آپ کو جواب دے گا ؟اگر ایک لاکھ پاکستانی اوبامہ کے پیج پر جاکر لکھ دیں گے کہdrone attacks بند کرو تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انگریزنہیں پڑھ رہے ہیں؟امریکن نہیں پڑھ رہے ہیں؟ 37ملین ا مریکن اوبامہ کے Facebookکے پیج پرکنیکٹڈ ہیں۔37 ملین ا مریکنز کو اوبامہ کے پیج سے پتہ چلے گاکہ آپ کے ملک میںdrone attacks ہو رہے ہیں۔انھیں ابھی نہیں معلوم۔آپ جائیں، اور لکھیں۔ جائیں Israel کے صدرکے پیج پر لکھیں کہ یہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ جائیں انڈیا کے صدر سے،اور سوال کریں کہ ایسا کیوں کررہے ہو ؟جائیں زرداری صاحب کے پیج پراور لکھیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ اسطرح اسطرح غلط کر رہے ہیں ۔اگر آپ انکو نہیں بتائیں گے تو کیا انکو اوپر سے وحی تھوڑی نہ آئیگی کہ کسطرح سے ٹھیک کرنا ہے۔ وہ آپ کے گھروں تک نہیں پہنچ سکتے ۔ پاکستان میں180 million لوگ ہیں، ایک صدر ہے ، ہر آدمی کے پاس وہ نہیں پہنچ سکتے، مگر ہر آدمی ان تک ضرور پہنچ سکتا ہے۔ جب آپ انکیFacebook کی دیواروں پر جاکر لکھیں گے تو میرا یقین ہے کہ ضرورکچھ نہ کچھ چینج آئے گا ۔
آپ وہا ں تک جانے کی کوشش کریں گے تو اگر اوبامہ آپ کو جواب نہیں ۔البتہ ان کے لوگ آپ کو جواب دیں گے ،اگر زرداری صاحب آپ کو جواب نہیں دیں گے تو آپ کو ہم خیال لوگ وہاں سے مل جائیں گے جو کہ دوبارہ دوبارہ لکھیں گے۔ مایوسی کفر ہے، ہمیں مایوسی کرنی ہی نہیں ہے ۔ ہمیں کوشش کرنا ہے، ہمیںآگے بڑھنا ہے۔اگر آپ نے زیادہ پیسے کمانے ہیں تو Facebookپرایسے لوگوں کو تلاش کریں،جو کہ زیادہ پیسے کماتے ہوں۔اگر آپ کو کوئی بیماری ہے تو ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو اس بیماری سے متاثرہ ہوں، تاکہ آپاُن کے ساتھ مل کر اُس بیماری کا حل تلاش کر سکیں۔آپ کے علاقہ میں اگرکسی کو کوئی مسئلہ درکار ہے توایسے گروپس تلاش کریں، یاایسے گروپس بنائیں کہ اس مسئلہ کے اوپر کام کرنا شروع کریں ،ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں ، اور Facebook کے بعد ایک اور ایک، لاکھ ہوسکتے ہیں۔ یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ کیسے استعمال کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہو ں کہ اگر یہ ٹولز میرے پاس نہیں ہوتے تو جو کچھ بھی میں آج کرتا ہوںیہ ساری چیزیں میرے لئے ممکن نا ہوتی۔ میں نے صرف اور صرف ایک چیز سیکھی ہے کہ جیسے ہی کوئی بہترینtool آئے اس کو فوراََسیکھو، اس کو ریسرچ کرواور اس کو استعمال کرو۔ اور یہی میری آپ سے بھی گزارش ہے کہ آج آپ کے پاس وہ ساری طاقتیں، ساری چیزیں موجود ہیں جن سے آپ ایک زبر دست اسٹیٹ میں منتقل ہو سکتے ہیں ۔یہ آپ کی choice ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔اپنے ماحول سے وہ ساری چیزیں نکال دیں جو آپ صبح سے شام تک اصلی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے چاروں طرف ورچوئل ریالٹی (Virtual Reality) تخلیق کریں، ایسے لوگو ں کو ایڈ (Add)کریں فیس بک کر جیسا کہ آپ بنناچاہتے ہیں۔
Bill Gates کوایڈ کریں ، انٹر نیشنلی جن لوگوں کو آپ اچھا سمجھتے ہیں انکوaddکریں ، ادیبوں کو addکریں، poets کوaddکریں، artistsکوaddکریں، faculties کو addکریں، MIT کے پروفیسرز کوaddکریں،Harvard کے پروفیسرز کوaddکریں، کیوں آپ add نہیں کرتے ؟
جب ان لوگوں کے درمیان آپ بیٹھیں گے تو، جیسے کہتے ہیں کہ خر بوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ،بالکل اسی طرحFacebook کیID کو دیکھ کر آپ بھی ان جیسے ہو جائیں گے۔ آپ ان کے علم سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔اس کے علم اوراس کی فیس بک پر (Knowledge Sharing)اگر آپ بھی اپنائینگے تو آپ بہت آگے چلے جائیں گے اور یہی چیز آپ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی تلقین کریں۔ اس پوری کتاب میں اگر کوئی بھی چیز آپ کو اچھی لگے تو میری گزارش ہے کہ برائے مہربانی آگے ضرور بتائیں اور اس کوشیئر کریں کیونکہ ہم ہی change کر سکتے ہیں، کوئی اور تبدیلی نہیں لاسکتا ہے ۔ آج ہمارے پاس پورا موقع ہے کہ ہم بطور پاکستانی ایک لاکھ ڈالر سال کا کماسکتے ہیں، کیوں ہم صرف لاکھ روپیے کمانے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہئے ہے کہ ہم اُن ساری چیزوں سے فائدہ اٹھائیں، جو ہمارے لئے فائدہ مند ہیں، اورہمارے لئے available ہیں۔
ہم ایک بہترین وقت میں پیدا ہوئے ہیں، ہم ایک بہترین ملک میں رہتے ہیں جہاں پر یہ ساری چیزیںavailable ہیں۔ہمیں اِن سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ان ساری چیزوں کوجن سے disadvantage ہے،اُسے چھوڑدیں،ہر ملک میںdisadvantages ہوتے ہیں، امریکہ میں ایک چھوٹی سی چائے کی دکان کھولنے کیلئے ڈھائی ہزار ڈالرزکے لائسنسز چاہئے ہوتے ہیں، آپ کے ملک میں تو نہیں چاہئے ہوتے ؟امریکہ میں35سے 40 فیصد آپ کو ٹیکس دینا ہوتا ہے ۔پاکستان میں ہم امریکہ سے نسبتاً کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا آپ ٹیکس دیتے ہیں؟ اور کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ہمیں اِن ساری چیزوں کا فائدہ اٹھاناہے اور اپنے آپ کوstrong کرنا ہے ۔اپنے ملک کو strong کرنا ہے۔جب آپstrong ہوں گے تو خودبخود آپ کا ملک strong ہونا شروع ہوجائے گا۔ اگر آپ لاکھ روپے مہینہ کمانا شروع کردیں گے یا پانچ لاکھ روپے مہینہ کمانا شروع کردیں گے تو آپ یقیناًخرچ بھی کریں گے، توخودبخود ترقی سے آپ کو بھی فائدہ ہوگا اورآپکے آس پاس موجود لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرا نام ہے ریحان اللہ والا ۔اپنی بات آپ تک پہنچانے میں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو اس کیلئے معذرت چاہتا ہوں۔ آپ میری تصحیح کر سکتے ہیں،مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ میر ی Facebook آئی ڈی ہے www.facebook.com/rehan33
مزید معلومات کے لئے visit کریں www.rehan.com
Facebook کے لیے www.facebook.com/rehan33
میرے فیس بُک پیج کو LikeکریںFacebook.com/RehanAllahwala
اور موبائل پر updates کے لئے “F RehanAllahwala” لکھ کر 40404 پر sms کریں۔
شکریہ
Published: Mar 13, 2015
Latest Revision: Mar 13, 2015
Ourboox Unique Identifier: OB-37158
Copyright © 2015